رمضان المبارک اور شب قدر
تحریر: مفتی عبدالوارث القاسمی
سابق معین
مدرس دارالعلوم دیوبند
Mufti Abdul Waris Sahab Qasmi |
اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے پوری کائنات کو پیدا فرمایا،
زمین ، آسمان ، چاند ، سورج ، ستاروں کو وجود بخشا، اس کو بے شمار نعمتوں اور ان گنت فضیلتوں سے مزین
فرمایا ، اور لاتعداد ذخائر اور دفینوں سے بھرپور فرمایا کہ دنیا ہزار کوششوں،بڑی
بڑی کامیابیوں اور حصولیابیوں کے دعووں کے باوجود، آج تک اس کی حقیقتوں کے ادنی
درجہ سے بھی واقف نہیں ہوسکی ہے، اللہ تعالی
نے انسانوں کو بہترین سانچے میں ڈھال کر ،
اشرف المخلوقات کا خطاب عظیم عطا فرما کر، اس دنیا کے اندر آباد فرمایا اور ان کی
ضروریات کی تکمیل کے لئے ہر چھوٹی بڑی چیز کو وجود بخشا، نیز اوقات کی تعیین کے
لئے حق جل مجدہ نے دن و رات، صبح و شام، ماہ و سال کو بنائے اور ہر ایک کو اس کے
نام اور فوائد کے ساتھ مزین فرمایا کہ 60 سیکینڈ کا ایک منٹ، 60 منٹ کا ایک گھنٹہ،
24 گھنٹے کا ایک دن و رات اور ہر دن کے لئےالگ الگ خوبصورت سا نام تجویز فرمایا، سات دنوں کا ایک ہفتہ ، 30 دنوں کا ایک مہینہ اور ہر مہینہ کے لئے بھی
ایک منفرد اچھوتا سا نام متعین فرمایا،اور 12 مہینوں کا ایک سال ۔ اس طرح اللہ تعالی نے اپنی نعمتوں اور رحمتوں
کا ایک حسین گلدستہ اپنے بندوں کو عنایت فرمایا ہے، اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں
اور رحمتوں میں سے ایک " شب قدر " ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے،ویسے تو
ساری راتیں اور سارے دن اللہ تعالی نے ہی بنائے ہیں ؛ لیکن وہ قادر مطلق ہے، وہ
فعال لما یرید ہے، وہ صاحب کن فیکون ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کو نہ کو ئی
روکنے والا ہے اور نہ ہی کوئی ٹوکنے والا ہے ، اس کا کوئی ساجھی اور شریک نہیں ہے، وہ اکیلا اور یکتا ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں ہے
وہ ہر معاملہ میں بے نیاز ہے؛ لہذا وہ جس دن کو چاہے دنوں کا سردار بنادے اور جس
رات کو چاہے اعلی مقام عطا فرمادے، وہ جس مہینہ کو چاہے اشہر حرم بنادے اور جس مہینہ
کو چاہے اشہر حج بنادے، وہ جس مہینہ کو چاہے معراج اور اسراء کی نسبت سے منسوب
فرمادے اور جس مہینہ کو چاہے شب براءت کاطمغہ عنایت فرمادے وہ جس مہینہ کو چاہے
قرآن کی نسبت سے سرفراز فرمادے، اور جس مہینہ کو چاہے " شب قدر" کی نعمت
عظمی سے مالا مال فرمادے۔
چناں چہ رمضان
المبارک کو اللہ تعالی نے جہاں بے شمار
نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں سے نوازا ہے ساتھ ہی روزہ جیسے اہم فریضہ کا مستحق بھی بنایا
ہے، اگر ایک طرف راتوں کو تراویح اور تہجد
کی نماز سےآراستہ کیا ہے، تو دوسری طرف تلاوت قرآن کی خوشبو سے ماحول کو زعفران
زار بنادیا ہے، اگر ایک طرف نوافل کو فرائض کے برابر قرار دیا ہے تو دوسری طرف ایک فرض کو ستر فرض کے برابر درجہ
اور مقام عطا کیا ہے۔
رمضان المبارک کے اندر
اللہ تعالی نے ایسی بابرکت ساعتیں اور گھڑیاں رکھی ہیں جن میں
وہ محض اپنے فضل و کرم سے گناہوں اور خطاؤں کے دلدل میں پھنسے ہوئے ، معصیت اور سیئات
سے لت پت، ناکامی و نامرادی کا طوق اپنے
گلے میں ڈالے ہوئے، حرماں نصیبی و قنوط و یاسیت
پر سر دھننے والے، لاکھوں گم کردہ راہ ا نسانوں
کو چٹکیوں میں معاف کردیتا ہے اور اپنے نصیبہ ور بندوں اور خوش بخت غلاموں میں
شامل کر لیتا ہے۔
ارشاد خداوندی ہے:
یاأیہا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون
اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے ، جیسا کہ تم سے
پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ، تاکہ تم متقی بن جاؤ (القرآن)
روزہ چوں کہ نام ہے کھانے ، پینے اور جماع سے رکنے کا، لہذا
روزہ رکھنے سے انسان کے اندر اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنے کا، نفس کو اس کے
متعدد تقاضوں، چاہتوں اور لغویات سے روکنے کا ایک خاص ملکہ پیدا ہوجاتا ہے اور نفس
پر غالب آ جانا ، نفس کو اپنی تابع داری
میں کر لینا ہی تقوی کی اصل بنیاد ہے۔
رمضان اور قرآن کے مضبوط رشتہ اور تعلق کو واضح کرتے ہوئے ارشاد
خدا وندی ہے:
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ہدی للناس و بینٰت من الہدی و الفرقان
کہ رمضان کا مہینہ ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید(لوح
محفوظ سے آسمان دنیا پر ) نازل کیا گیاہے
جو لوگوں کے واسطے ہدایت اور روشن دلیلیں ہیں۔
ماہ مبارک کے تیس دنوں کو تین عشروں کی ترتیب پر تین حصوں میں تقسیم کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ
’’ھذا شھر اولہ رحمۃ وأوسطہ مغفرۃ وآخرہ عتق من
النیران
(صحیح ابن خزیمہ)
کہ رمضان کامہینہ وہ مبارک مہینہ ہے کہ اس کا پہلا عشرہ
رحمت ہے ، دوسرا
عشرہ مغفرت ہے ، اس کا تیسرا عشرہ
جہنم سے خلاصی اور چھٹکارے کا عشرہ ہے۔
اسی اخیر عشرہ میں اللہ
تعالی نے اعتکاف کی نورانی وعرفانی عبادت کو رکھا ہے جس کے بارے میں ارشاد
ہے :
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فی المعتکف : ھو یعتکف الذنوب ویجری لہ من الحسنات کعامل الحسنات کلھا
(سنن ابن ماجہ)
کہ معتکف گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کو نیک اعمال کا اس قدر ثواب ملتا ہے جتنا ان نیک
اعمال کے کرنے والوں کو ملتا ہے، یعنی معتکف کو ان نیک اعمال کا بھی ثواب دیا جاتا
ہے جن اعمال کو وہ اعتکاف کی وجہ سے نہیں کر پاتا ہے، مثلاً بیمار کی عیادت ، نماز
جنازہ میں شرکت وغیرہ
اور اعتکاف کا منشا بھی تو یہی ہے
کہ معتکف دربار خداوندی میں جاکر بیٹھ جائے اور ایک ہی رٹ لگاتا رہے’’ اگر تو در نہ کھو لے گا تو میں بھی
در نہ چھوڑوں گا‘‘ یعنی اے اللہ ! جب تک
تو میری مغفرت نہیں کر دیتا اس وقت تک میں بھی تیری چوکھٹ کو چھوڑ کر کہیں نہیں
جاؤں گا۔
پھر اخیر عشرہ کے اندر تمام راتوں
میں افضل رات " شب قدر " کو رکھا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے
روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
تحروا لیلۃ القدر فی
العشر الاواخر من رمضان
(بخاری)
کہ شب قدر کو رمضان کے اخیر عشرہ میں
تلاش کرو۔
نیز حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ
عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فاطلبوھا فی الوتر منھا
(مسلم)
کہ شب قدر کو اخیر عشرہ کی طاق
راتوں یعنی 21، 23، 25، 27، 29، ویں راتوں میں تلاش کرو۔
شب قدر کی عظمت کا اندازہ اس سے
بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سورۃ القدر کے نام سے ایک
پوری سورت نازل فرمائی ہے جس میں اللہ تعالی
نے شب قدر کی فضیلت کو قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے
’’ بے شک ہم نے قرآن مجید کو شب
قدر میں نازل کیا ہے* آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیسی چیز ہے* شب قدر ہزار مہینوں
سے بہتر ہے* اس رات میں فرشتے اور روح القدس یعنی جبریل علیہ السلام اپنے رب کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر اترتے ہیں*
(اور وہ شب) سراپا سلام ہے* وہ شب قدر طلوع فجر تک رہتی ہے*‘‘
شان نزول: اس سورۃ کا شان نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضور
اقدسﷺنے بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کا واقعہ بیان فرمایا کہ وہ ایک ہزار مہینہ تک
مسلسل اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے رہے کبھی ہتھیار نہیں
اتارے تو اس بات سے مسلمانوں کو تعجب ہوا۔
اور رشک ہوا کہ اے کاش! ہمیں بھی اتنی لمبی عمر ملتی تو ہم بھی ایک ہزار
مہینہ تک راہ خدا میں جہاد کرتے رہتے اور ہم بھی اتنے بڑے ثواب کے مستحق ہوتے تو
اللہ تعالی نے سورۃ القدر نازل فرماکر تسلی دی کہ اگر ان کو ایک ہزار سال کی عمر
ملتی تھی تو تم کو بھی غم کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم نے تم کو ’’ شب قدر‘‘ ایک ایسی
رات بخشی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، گویا کہ اس ایک رات میں عبادت کا ثواب تراسی۸۳
سال چار۴ ماہ کی عبادت سے بھی زیادہ بہتر ہے اور زیادتی کی
کوئی حد مقرر نہیں ہے، شب قدر ہزار مہینوں سے کتنی افضل ہے؟ دوگنی یا چوگنی؟ دس گنی یا سو گنی؟ کچھ بھی ہو سکتا ہے، یہ بندہ کے اپنے خلوص و للہیت، انابت الی اللہ اور
قرب خداوندی پر منحصر ہے۔
دوسرا واقعہ یہ ذکر کیا ہے کہ بنی
اسرائیل میں ایک عابد کا حال یہ تھا کہ ساری رات عبادت میں مشغول رہتا اور صبح
ہوتے ہی جہاد کے لئے نکل جاتا پھر دن بھر جہاد میں مشغول رہتا، ایک ہزار مہینہ تک
اس نے مسلسل اسی عبادت میں گزار دئے، اس پر اللہ
تعالی نے سورۃ القدر نازل فرماکر اس امت کی فضیلت سب پر ثابت فرمادی، اس سے
یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ارکان اسلام نماز ، روزہ ، زکوۃ اورحج کی عبادتیں گذشتہ
امتوں میں بھی کسی نہ کسی شکل اور ہیئت میں موجود تھیں،لیکن "شب قدر" کی
نعمت عظمی امت محمدیہ کی خصوصیات میں سے ہے (تفسیر مظہری بحوالہ معارف القرآن)
اس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل
نہیں ہے کہ اگر ایک مسلمان ستر۷۰ سال کی
عمر پاتا ہے اور وہ اپنی عمر میں دس، بیس مرتبہ اس رات کی عبادت کو پالیتا ہے تو
صرف شب قدر کی عبادت کا ثواب اس کے اعمال نامہ میں ہزار، دو ہزار سال کی عبادت سے
بڑھ کر ہوگا جب کہ دیگر عبادتوں اور ریاضتوں کا ثواب اور نیکیاں اس کے علاوہ ہوں گی۔
ذرا تصور کیجئے! اگر کسی خوش نصیب کو پچاس مرتبہ شب قدر میں
عبادت کرنے کی سعادت حاصل ہو جائے تو گویا کہ وہ تقریباً پانچ ہزار سال کی عبادتوں
کا ثواب پالے گا۔ اللہ اکبر کبیرا ! یہ ہے رب ذوالجلال والاکرام کی عنایت و محبت ،
یہ ہے خالق کون و مکاں کی جود و سخا، یہ ہے حنان
و منان کی بخشش و عطا ، یہ ہے رحمان و رحیم ، وہاب و رزاق کی نوازش اور بندہ پروری، اسی کو
کہا ہے کہ ’’ رحمت حق بہانہ می جوید بہا نمی جوید ‘‘ اللہ کی رحمت بہانہ ڈھونڈھتی
ہے روپیہ پیسہ مال و دولت نہیں ڈھونڈتی ہے۔
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک
روایت میں ہے کہ
من قام لیلۃ القدر
ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ
کہ جو شخص شب قدر میں اللہ کی ذات
پر یقین کرتے ہوئے اور ثواب کی امید رکھتے
ہوئے کھڑا رہا یعنی عبادتوں میں مشغول رہا
اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئے گئے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے
حضور اقدسﷺ سے دریافت کیاکہ یارسول اللہ ! اگر ہم کو معلوم ہوجائے کہ آج شب قدر ہے تو ہم
کون سی دعاء کا اہتمام کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:
اللہم انک عفو تحب
العفو فاعف عنی
کہ اے اللہ تو بہت معاف کرنے والا
ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے پس تو ہماری خطا کو معاف فرمادے۔(قرطبی)
دیکھتے ہی دیکھتے رمضان کا مبارک مہینہ اپنے آخری مرحلے میں پہونچ گیا، جدائی اور فراق کا اعلان ہوگیا،
الوداع الوداع یا شھررمضان کا بگل بج گیا، ماہ مبارک رخصت ہوگیا، سورج غروب ہوتے ہی افق
پر جہاں ہزاروں مسرتوں ، خوشیوں ، اور فرحت وانبساط کا پیغام لے کر ’’عید سعید‘‘ کا چاند نمودار ہوا ، جس ’’ہلال عید‘‘
کا سال بھر سے انتظار تھا ، جس گھڑی کے لئے مہینوں سے بے تاب تھے ،جس لمحہ کے لئے
پلکیں بچھائے استقبال میں کھڑے تھے ، آج اسی چاند کا دیدار کرکے دلوں میں خوشیوں
اور مسرتوں کا سیلاب امنڈ آیا ، ایک دوسرے کو عید الفطر کی مبارک بادی پیش کرنے کا
ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا ، چاند کو دیکھ کر تسلی ہی نہیں ہو رہی تھی ، بار بار دیکھنے کو جی چاہ رہا تھا
، دیدار کر کے اگر ایک طرف بچوں کی کلکاریاں ، اچھل کود ، اور ان کے دلوں میں مچلتے ارمان ، دیکھنے
کے قابل ہوتے ہیں، جوانوں میں عجیب سی سرمستی پیدا ہوجاتی ہے ، ان کی قلبی کیفیت
کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے ، ہر طرف عید مبارک کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں ، عید
مبارک ، عید مبارک کے ترانے گنگنانے لگتے ہیں ، پیغامات مبارک بادی کے ارسال و ترسیل کی ہوڑ سی لگ جاتی ہے ، ہر ایک پیش قدمی کرکے ابتداءً تہنیت وتبریک کہنا چاہتا ہے۔
تو دوسری طرف کچھ بندگان خدا مصلی
پہ بیٹھ کر رونے دھونے میں مصروف ہو جا تے ہیں کہ اے اللہ ! ابھی ابھی تو یہ مبارک
مہینہ سایہ فگن ہوا ہی تھا ، ابھی تو اس کے انوار و برکات کا سلسلہ ہم سیہ کاروں
کے لئے شروع ہی ہوا تھا ،ابھی تو تیری مغفرت و بخشش کے چشمہ میں ابال آیا ہی تھا ،
ابھی تو دریائے محبت والفت نے جوش مارنا
شروع ہی کیا تھا ، ابھی تو بے قرار دلوں کو قرار آنا باقی ہے ، ابھی تو بے چینی
واضطرابی کیفیت کو سکون کی تلاش ہے ، ابھی تجھ سے لو لگانے اور تیرا قرب حاصل کرنے
کا سوچا ہی تھا ، ابھی تو خطاؤں اور لغزشوں کی فہرست مرتب کرہی رہا تھا ، ابھی تو معصیت ونافرمانی سے دل کھول کے توبہ بھی
نہ کرسکا تھا ، وا اسفاہ ! اتنی سرعت اور
تیزی کے ساتھ یہ مبارک مہینہ گزر گیا کہ جدائی کے غم سے دل پھٹا جارہاہے ، یقین نہیں
آرہا کہ واقعی یہ مہینہ رخصت ہوگیا،
حالاں کہ اس مبارک مہینہ میں اللہ
تعالی کی رحمتوں ، برکتوں اور مغفرتوں کا نزول بارش کی طرح ہر خاص و عام ، سب پر یکساں
ہوا ، کسی نے خوب سیرابی حاصل کی تو کسی نے یوں ہی ضائع کردیا ، کسی کے سر سے ماہ مبارک اس طرح گزر گیا گویاکہ احساس
بھی نہیں ہوا کہ کیا کھویا کیا پایا ، اس
نے ان قیمتی لمحوں کو بھی برباد کر دیا جس کا انتظار گیارہ مہینوں سے کیا جا رہا
تھا ، اللہ تعالی اپنے بندوں کے قلوب ، ارادوں ، اور کیفیات سے بھی خوب واقف ہے ، اپنے مایوس و محروم بندوں کو بھی دیکھتا اور
سمجھتا ہے ، وہ رحیم وکریم آقا کسی حال میں
بھی اپنے بندوں کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہتا ہے۔
لہذا اللہ تعالی اپنے بندوں کو ایک
اور گولڈن چانس دیتا ہے جس کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قام لیلتی العیدین
محتسبا للہ لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب
(سنن ابن ماجہ)
کہ جو شخص عیدین کی راتوں میں اللہ
کے واسطے ، ثواب کی امید کے ساتھ کھڑا رہا
یعنی عبادتوں اور ریاضتوں میں مصروف رہا ، اس کا دل اس دن نہیں مرے گا جس دن سارے دل مردہ
ہو جائیں گے۔
مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن جب کہ
ہرشخص پریشان ہوگا ، وہاں کسی
کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا ، تمام انسان
نفسی نفسی کے عالم میں مبتلا ہوں گے ، تو
اس وقت عیدین کی راتوں کو عبادتوں اور ریاضتوں سے منور کرنے والےخوش نصیب بندگان
خدا مطمئن ہوں گے، ان پر کسی طرح کا کوئی خوف طاری نہ ہوگا وہ
پرسکون انداز میں اپنے مولا کی رحمتوں کو پاکر شاداں وفرحاں ہوں گے ۔
دعاء ہے کہ اللہ تعالی ماہ مبارک کے صدقہ اور طفیل میں اور اپنے خاص فضل سے پوری امت مسلمہ کی مغفرت فرمائے اور تمام تر بلاؤں مصیبتوں سے محفوظ فرمائے ۔
آمین یا رب العلمین
مفتی عبد الوارث القاسمی
سابق معین مدرس دارالعلوم دیوبند
ناظم مدرسہ کنز العلوم رحمانیہ گریا،
ارریہ
۲۶؍ رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ
مطابق ۹؍ مئی ۲۰۲۱ء
بروز اتوار ، بعد نماز ظہر
0 Comments