قسط اول
سلگتے مسائل بے تکا حل
===================================
تحریر : مفتی عبدالوارث القاسمی
سابق معین مدرس دارالعلوم دیوبند
ناظم مدرسہ
کنزالعلوم رحمانیہ گریا ارریہ
===================================
آج پوری دنیا عالمی
وبائی بیماری کووڈ ۱۹ ( کورونا ) سے جوجھ
رہی ہے ، پوری دنیا میں ہاہاکار مچاہواہے ، پوری دنیا جیسے تھم سی گئی ہے ،
ایسے میں ایک سو پینتیس کروڑ آبادی والا ملک ہندوستان بھلا کیسے محفوظ رہ سکتا
تھا، جس کے پوری دنیا کے ساتھ تجارتی معاہدے نیز آمد و رفت کے رابطے ہیں ،
فضائی راستے سے ہوائی جہاز کے ذریعہ جہاں لاکھوں لوگ بغیر کسی مشقت و رکاوٹ کے ہندوستان آگئے اور ملک کے کونے
کونے میں اپنے گھروں کو پہونچ گئے ، وہیں سمندری راستے سے بھی پردیس کو خیر
باد کہہ کر آبائی وطن کے لئے رخت سفر باندھ لیا اور بڑی سہولت کے ساتھ وطن واپس
آگئے،
ادھر ’’دریا دل
ہندوستان‘‘ نے ہر آنے والے کا ، جس فراخدلی کے ساتھ استقبال کیا وہ بھی
افسوس ناک ہے ، ان کے لئے ایئر پورٹ پر کوئی رکاوٹ تھی نہ کسی بندرگاہ پر آنے
والوں کو اسکیننگ کے مراحل سے گزارنے کا التزام تھا ،نہ کسی اور ٹیسٹ کا ، جب کہ
ایئر پورٹ پرامیگریشن ،کسٹم ، تحفظات کے پیش نظر متعدد تفتیشی مراحل کے لئے ہر
پوائنٹ کا محفوظ و مضبوط انتظام ہوتا ہے، انہی میں سے کسی ایک کاؤنٹر کو ’’کورونا
ٹیسٹ ‘‘ کے لئے مخصوص کیا جا سکتا تھا، حتی کہ ائیرپورٹ سے آبائی صوبہ ، پھر
آبائی ضلع ، بلاک ، پنچایت ، محلہ سماج ، کہیں بھی ان کے لئے کوئی بندش کوئی
رکاوٹ نہیں تھی۔
چنانچہ ان آنے والوں
نے جہاں والدین ، بیوی بچوں ، سے ملاقاتیں کیں وہیں گاؤں سماج کے بزرگوں رشتہ
داروں ، دوستوں سے مصافحہ ، معانقہ کئے، ساتھ ہی عزیز از جان ، پیاروں سے لپٹ کر
بچھڑے ایام کے گلے شکوے دور کرتے رہے اور جانے انجانے میں قیام پذیر ممالک سے اپنے
ہمراہ لائے ہوئے ’’کووڈ ۱۹‘‘ وائرس کو ہر ملنے جلنے والوں میں بطور تحفہ کے منتقل
کرتے رہے۔
کاش کہ حکومت کے
کارندوں نے بروقت اس مہاماری عالمی وبا کو روکنے اور اس سے حفاظت و بچاؤ کے لئے اس
آنے والے سیل رواں کے دہانے کو بند کیا ہوتا تو آج اس ملک کی یہ حالت زار نہ ہوتی ،
جن ممالک میں کورونا تیزی سے پھیل رہا تھا وہاں سے آنے والوں کی نشاندہی کی جاتی ،
انہوں نے جن جن سے ملاقاتیں کی تھیں ان کی سلامتی کے لئے ان کو کورنٹائن کیا جاتا ،
جانے انجانے میں ان کے رابطے میں جو لوگ بھی آگئے تھے اولاً ان کو تلاش کرکے سب کو
کورنٹائن کیا جاتا تاکہ دوسرے لوگ اس وبا سے محفوظ رہیں ، اسی طرح بیرون ممالک سے
جتنے اسٹوڈینٹس ، زائرین ، بزنس مین اور ملازمت پیشہ حضرات کو اسپیشل جہازوں کے
ذریعہ ملک واپس لانے کے بعد ان کو کم از کم کورنٹائن کیا جاتا۔
لیکن واہ رے ہندوستانی
حکومت ! ’’مارے گھٹنہ پھوٹے سر کے مصداق‘‘
کرسی اقتدار پر بیٹھ کر اونے پونے
فیصلے لیتی رہی اور ہندوستان جیسی عظیم جمہوری مملکت کے اندر کبھی ، ہر صحیح اور
غلط فیصلے میں امتیاز کرنے والی رعایا ، صم بکم عمی ، کے مصداق ، ہر فیصلے پر سر
تسلیم خم کرتی رہی۔کبھی جنتا کرفیو کے نام پر پورے ملک کو یک لخت ساکت کر دیا گیا
(۲۲؍ مارچ ۲۰۲۰)
تو کبھی تالی اور
تھالی بجواکر اندھ بھگتی کا ثبوت لیا گیا(۲۲؍مارچ؍ ۲۰۲۰ء ۔ ۵بجے شام)
کبھی
ساری لائٹوں کو بند کرکے موم بتی ، موبائل کی فلیش لائٹ اور ٹورچ کی روشنی کرکے
جشن چراغاں کیا گیا ۔ (۵؍ اپریل ۲۰۲۰ء)
’’نمستے ٹرمپ‘‘
۳۰؍جنوری ۲۰۲۰ء کو ہندوستان میں
کورونا کا پہلا کیس سامنے آگیا تھا اسی وقت حکومت کے کان کھڑے ہو جانے چاہئے تھے
لیکن اس کے باوجود اس کو نظر انداز کردیاگیا،
World Health
Organization (WHO)
عالمی محکمہ صحت کی
وارننگ کو بھی بالائے طاق رکھ دیا گیا ، سرکاری خزانے کو پانی کی طرح بہاکر امریکی
صدر ’’ ڈونالڈ ٹرمپ ‘‘ کے استقبال کے لئے ’’ نمستے ٹرمپ ‘‘ کے انعقاد کی تیاری میں
مصروف رہے ، بی جے پی حکومت کی ناکامی پر
پردہ ڈالنے کے لئے کروڑوں روپیہ کے صرفہ سے ’’ دیوار پردہ ‘‘ کی تعمیر کی گئی ،
گجرات کی سڑکوں پر جھگیوں ، جھونپڑیوں میں زندگی بسر کرنے والے ، اور حکومت کی
ناکامیوں پر منہ چڑھانے والے ، بے
سروسامانی کے عالم میں جینے مرنے والے لوگوں کی آرتھک اور معاشی مدد کرکے ، ان کی
تصویر بدلنے کی بجائے ایک بلند وبالا دیوار کی تعمیر کرکے ، جہاں ان کی زبوں حالی کو چھپانے کی کوشش کی گئی
ساتھ ہی ان غریبوں ، مجبوروں ، بے کسوں کا مذاق بھی اڑایا گیا ، اور سپر پاور صدر
ٹرمپ کے استقبال کے جنون میں اتنا بھی خیال و شعور نہیں رہا کہ گھر میں جب کوئی
مہمان آتا ہے تو گھر کا ہر فرد عمدہ لباس زیب تن کرتا ہے ، حتی کہ گھر کے نوکروں و ملازموں کو بھی لباس
فاخرہ عطا کیا جاتا ہے اور آنے والے مہمان ، افراد خانہ کے ساتھ نوکروں اور
ملازمین کو بھی فرحت وانبساط میں دیکھ کر ایک خوش آئند اور بے مثال تأثر لے کر
جاتے ہیں اور مہمان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ جب ان لوگوں کی ظاہری حالت میں
خوشیوں کی جھڑی لگی ہوئی ہے تو یقیناً ان کے دلوں کی دنیا بھی بہت خوش گوار ہوگی،
یہ بات مشاہدہ کی ہے کہ اگر کسی مہمان کی آمد کے موقع سے افراد
خانہ کو نئے جوڑے یا نئے کپڑے دلائے جائیں تو مہینوں کیا برسوں تک یاد رکھا جاتا
ہے کہ فلاں کی آمد پر یہ جوڑا دلوایا گیا تھا۔
اسی طرح مدھیہ پردیش میں صوبائی حکومت کی کرسی اقتدار حاصل
کرنے کے لئے غیر اخلاقی وغیر انسانی ڈرامہ کے’’ تانے بانے‘‘ بنے گئے ، برسراقتدار
کانگریس پارٹی کی حکومت کو گرا نے کے لئے ، کروڑوں روپیہ میں ممبران اسمبلی کی خرید
وفروخت ہوئی ، پھر راتوں رات مدھیہ پردیش کی حکومت بی جے پی کی جھولی میں آگئی۔ اس
ڈرامہ سے فراغت کے بعد بغیر کسی پیشگی تیاری ،
بغیر کسی وارننگ اور بغیر کسی اطلاع کے اچانک ٹیوی پر آکر اعلان کرتے ہیں
کہ ’’ آج رات ( 24 مارچ 2020) بارہ بجے سے
21 دن کا لاک ڈاؤن لگا دیا گیا ہے‘‘
واہ ! بھئی واہ!
۱۲؍گھنٹہ کا ’’جنتا کرفیو‘‘ کے لئے چار دن قبل سے تشہیر کی
جارہی تھی جبکہ سب کو اندازہ تھا کہ اتوار کادن چھٹی کا دن ہے، کسی نہ کسی طرح گزر
ہی جائے گا، لیکن بغیر کسی تیاری کے اچانک
۲۱؍ دنوں کے لئے ’’ لاک ڈاؤن‘‘ کا اعلان
کر دیا جاتا ہے، کہ جو جہاں ہیں وہیں رک جائیں، اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں ،باہر
نہ نکلیں ، اسی میں ہماری جان کی سلامتی کا راز مضمر ہے ، دوکانیں نہیں کھول سکتے ،
دفاتر ، آفس ، کمپنی ، فیکٹریوں میں تالے ڈال دئے گئے ، کہیں کسی ضرورت سے نہیں جاسکتے ، کسی رشتہ دار
کی خبر خیریت دریافت کرنے کے لئے سفر نہیں کرسکتے ، سفر کرنا تو دور جو لوگ پہلے
سے سفر میں تھے یک لخت اسی جگہ ان کو روک دیا گیا ، نہ آگے جا سکتے تھے نہ پیچھے
واپسی کا امکان تھا ، ہر جگہ ، ہر گلی نکڑ پر ، ہر چوراہے پر پولیس والے ڈنڈا لے
کے استقبال کے لئے کھڑے ملتے تھے اور برسہا برس سے پولیس والوں نے جتنے ڈنڈے کسی
خطرناک عادی مجرم پر بھی نہ برسائےتھے اس سے کہیں زیادہ پرواسی اور مہاجر مزدوروں
پر ہاتھ صاف کرنے کا زریں موقع ہاتھ آگیا تھا۔
اس صورت حال کا تصور کرتے ہی روح کانپ جاتی ہے کہ ایک سو پینتیس
کروڑ آبادی والا اتنا بڑا ملک ، لاکھوں نہیں بل کہ کروڑوں لوگ ہر وقت سفر میں ہوتے
ہیں ، کوئی مختصر سفر میں تو کوئی طویل ترین سفر میں نکلے ہوتے ہیں ، کوئی بہت شدید
تقاضے کی تکمیل کے لئے سفر کرتے ہیں ، تو کوئی اپنی فرصت کے لمحات کو یادگار بنانے
کے لئے کسی تاریخی مقام پر سیر وتفریح کے لئے پا بہ رکاب ہوتے ہیں ، کوئی بس اسٹینڈ
پر اپنی مطلوبہ روٹ اورپسندیدہ بس کا منتظر ہوتا ہے تو کوئی ریلوے اسٹیشن کے لئے
آٹو اور ٹیکسی سے نکل چکا ہوتا ہے ، کوئی ٹکٹ گھر ، ویٹنگ ہال یا پلیٹ فارم پر اپنی
ٹرین کا انتظار کر رہا ہوتا ہے ، تو کوئی
ٹرین پر سوار ہوکر دل میں ہزاروں خواب سجائےاپنے مقام کے لئے رواں دواں
ہوتا ہے،
کوئی ایئر پورٹ کے
راستے میں تو کوئی ایئر پورٹ کے باہر کھڑا ہوتا ہے ، کوئی بورڈنگ پاس لے رہا ہوتا
ہے تو کوئی اپنے سامان سفر کے ساتھ لگیج اسکیننگ کی لائن میں کھڑا ہوتا ہے ، کوئی
ویٹنگ ہال میں بیٹھ کر اپنی فلائٹ کے انتظار میں فری وائی فائی کے مزے لے رہا ہوتا
ہے تو کوئی زمین و آسمان کے درمیان 36 ہزار فٹ کی بلندی پر 400 کیلو میٹر تا 800 کیلو
میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ، بادلوں کے بہت اوپر سے روئی کے گالوں جیسا بادلوں کے
پہاڑوں کا ، اور بے شمار قدرتی مناظر کا
مشاہدہ کرتے ہوئے ، اور ہواؤں سے باتیں کرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب محو پرواز
ہوتا ہے ، ان پر لطف و سہولیات سے بھر پور سفر کے علاوہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اس ترقی کے
دور میں بھی کسمپرسی کی حالت میں سفر کرتے ہیں ، ٹرینوں اور بسوں میں بھیڑ بکریوں
کی طرح ان کو ٹھونس ٹھونس کر سفر کرایا جاتا ہے ، تو چھوٹی چھوٹی موٹر گاڑیوں سے
اپنی منزل مقصود تک جانے کے لئے مجبور ہوتے ہیں ، حتی کہ سامان کے نقل وحمل کے
واسطے استعمال میں لائی جانے والی گاڑیاں ، ٹریکٹر ،اور ٹرانسپورٹ ٹرک وغیرہ ہی
بعضوں کا واحد سہارا ہوتے ہیں ، بعضے بد نصیب تو پیدل ہی چلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں اچانک
’’ لاک ڈاؤن ‘‘ کا اعلان یا تو بے حسی کا غماز ہے یا پھر جان بوجھ کر سب کو
موت کے منھ میں دھکیلنا ہے ، بھوکے پیاسے ہر کوئ
،آمنا وصدقنا ، کی تصویر بنا ہوا تھا ، جب کہ چھوٹے بڑے سارے ہوٹلس، گیسٹ
ہاؤسیس ،چائے کی دکانیں حتی کہ لائن ہوٹل سب کچھ بند کرا دیئے گئے،
بیچ راستے میں جہاں نہ
کھانے کا کوئی نظم تھا نہ سر چھپانے کی کوئی جگہ ، کھلے آسمان کے نیچے ، بے سہارا ،
بے یار ومددگار ، بھوک پیاس کی شدت کو برداشت کرتے ہوئے امید کی نظروں سے ہر چہار
جانب نظریں دوڑاتے ہوئے وقت گزارنے پر مجبور تھے کہ کہیں سے کچھ کھانے کو مل جائے،
بڑے تو بڑے ، بچوں کے نوالے بھی چھن گئے ،
ماں کی چھاتیاں خشک ہوگئیں اور نظروں کے سامنے بھوک وپیاس کی شدت سے بلک بلک کر
روتے روتے معصوم لاڈلوں کی روحیں پرواز کرنے لگیں۔
حالاں کہ ابھی کورونا
متاثرین کے صرف پانچ سو کیس سامنے آئے تھے، ایک سو پینتیس کروڑ آبادی والے ملک
ہندوستان میں ابھی بھی کوئی خاص بڑا مسئلہ نہیں تھا چند دنوں کی مہلت دے کر سب کو
اپنے اپنے محفوظ مقام پر پہونچ جانے کی وارننگ دی جاسکتی تھی ، محو سفر گاڑیوں کو
منزل مقصود تک پہونچنے کی اجازت دی جاسکتی تھی ، پیدل چلنے والے افراد کسی پناہ
گاہ میں سر چھپا سکتے تھے ، کھانے کے لئے چند دنوں کا راشن خرید سکتے تھے ، بچوں
کے لئے دودھ بسکٹ کا بندوبست کر سکتے تھے ، بوڑھوں اور بیماروں کے لئے جینے کا
واحد سہارا ان کی دوائیوں کا نظم کیا جا سکتا تھا۔
لیکن ہائےافسوس ! کہ ایسا
کچھ بھی تو نہیں ہوسکا چند دنوں کی بھی مہلت نہ مل سکی۔
مسجدیں بند کرادی گئیں
، مدرسہ، اسکول ، کالج ، یونیورسیٹیوں میں تالے لگ گئے ، تعلیم وتربیت کا سارا
نظام چرمرا گیا ، ہر تعلیمی ادارہ کا اپنا ایک تعلیمی سال ، تدریسی سیشن ہوتا ہے ،
عصری و سرکاری تعلیمی اداروں میں جہاں اپریل تا مارچ سیشن چلتا ہے وہیں دینی تعلیمی
اداروں میں شوال تا شعبان ، تعلیمی سیشن چلایا جاتا ہے اور اخیر سال میں سالانہ
امتحانات منعقد کرانے کا التزام ہر ادارہ کا معمول ہوتا ہے ، اسی سے کامیاب و
ناکام طلبہ میں امتیاز کیا جا سکتا ہے، محنتی وممتاز طلبہ امتحان کے بعد ہی خود
اعتمادی کے ساتھ کامیابی وکامرانی کا پرچم لہراتے ہیں اور ملک، قوم و ملت کا نام
پوری دنیا میں روشن کرتے ہیں؛
لیکن اس سال کورونا
وائرس سے طلبہ وطالبات کی حفاظت و سلامتی کے پیش نظر ابتداء مارچ ہی سے تعلیمی
سلسلہ منقطع کردیا گیا اور سالانہ امتحان کو بھی اولا مؤخر کیا گیا لیکن حالات کی
سنگینی اب بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہے لہذا سالانہ امتحان کو ملتوی کردیا گیا اور
ترقی و تنزلی درجات کے لئے امتحان ششماہی کے نمبرات کو ہی معیار قرار دے دیا گیا۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سابق معین مدرس
دارالعلوم دیوبند
و ناظم مدرسہ
کنزالعلوم رحمانیہ گریا، ارریہ
بتاریخ : ۱۵؍ جون ۲۰۲۰ء
بروز : پیر
0 Comments